bhhot ki shadi part 2
جیئو شہزادے
صفحہ 9
لالے کی زندگی کو روگ لگ گیا. وه سکول تو جانے لگا مگر جنونی دوره کسی بھی وقت اسے بے حال کر دیتا.
دوران جنون اس کے منہ سے بس ایک هی لفظ جاری رهتا "نہیں نہیں نہیں"
آخر کا مطلب کیا هو سکتا تھا. لالہ جب هوش میں هوتا تو لوگوں نے کئی بار اس سے پوچھا که دوره پڑتے وقت تم نہیں نہیں کیوں کرتے هو، مگر لالے نے کبھی کسی کو اس کا مطلب نه بتایا.
ادھر میرے حالات کچھ اس طرح رخ بدل گئے که میں تیسری بار سکول میں داخل هوا اور وه بھی لالے کی مہربانی سے. پہلے اس نے مجھے سمجھایا که هم پڑھیں گے بھی ایک ساتھ اور کام بھی ایک ساتھ کریں گے.
پھر لالے نے اساتذہ کو راضی کیا جو مجھ سے بدظن هو چکے تھے اور مجھے بھگوڑا قرار دے کر اب مجھ پر اعتبار نہیں کرنا چاہتے تھے. لالے نے کسی نه کسی طرح ان کو راضی کر لیا.
تیسرا مرحلہ ابو کو راضی کرنا تھا کیونکہ اب وه سکول کے حوالے سے میری ذمہ داری نہیں لینا چاہتے تھے. ان کو میرے بھگوڑے پن کی وجہ سے اساتذہ کے سامنے شرمندہ هونا پڑا تھا اور اب وه سکول میں میری گارنٹی نہیں دے سکتے تھے.
تاهم لالے کی ذمہ داری پر ابو نے مجھے تیسری بار سکول میں کروا دیا.
مگر جیسا که کوئی انسان اپنے آپ کو مکمل تباہ کرنے کی قسم کھا لیتا ھے. میرا حال بھی کچھ ایسا هی تھا.
چند دن تک میں سکول جاتا رها پھر خیال آیا که آخر میں نے داخلہ کیوں لے لیا. جب یہاں میرے لئے کوئی دلچسپی هی نہیں تو میں کیوں چلا آیا.
دماغ خانہ خراب نے مجھے ایک بار پھر بھاگنے کی راه دکھائی.
اور پھر میں نے تیسری بار سکول چھوڑا تو گھر کا رها نه گھاٹ کا. لوگ مچھ سے نفرت کرنے لگے. ابو نے مجھے نظروں سے دور هو جانے کا حکم دیا. اب صرف نازیه کی ذات میرے لئے سہارا تھی مگر میں یه بھول گیا که میری ان حرکات کی وجه سے نازیه بھی تو متنفر هو سکتی ھے.
آواره گردی میں بہت سا وقت گزر گیا پھر معلوم هوا که کراچی سے نازیه آنے والی ھے. یه خبر سن کر هی میری دنیا میں بہار آ گئی.
نازیه پہلے بھی ایک بار آ کر جا چکی تھی اور مجھے علم نہیں هوا تھا. مگر اب میں مستعد اور چوکس هو گیا اور نازیه کا انتظار کرنے لگا.
اور پھر ایک دن همارے گاؤں میں تانگه داخل هوا جس پر نازیه آئی تھی. میں نے اسے دور هی دور ره کر دیکھا اور انتظار میں رهتے لگا که وه کب مجھے اکیلے میں ملتی ھے. تین چار روز گزر گئے مگر هماری ملاقات نه هو سکی. اس کو میں نے گئی بار اشارے بھی دیے که کہیں اکیلے میں ملو، مگر موقعه نه ملا. بے چینی سے میری جان نکلی جا رهی تھی. میں اس کی قربت کو ترس رها تھا.
پھر اچانک مجھے احساس هوا که وه از خود ملاقات کی کوشش نہیں کر رهی. مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا. آخر اس کو اس بات کا احساس کیوں نہیں که اس کی خاطر میں نے اپنا آپ تباہ کر لیا اور زمانے کے خیالات چھوڑ کر بس اسی کے انتظار کرتا رها.
آخر میں نے همت کر کے چند لمحوں کا موقعه ایجاد کیا اور اس سے پوچھا که اتنی بے رخی کیوں؟
میرے کانوں نے نازیه کے یه الفاظ سنے.
"اب تم میرے معیار کے نہیں رهے، میں تم سے محبت نہیں کرتی"
یه سن کر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا
صفحہ 9
لالے کی زندگی کو روگ لگ گیا. وه سکول تو جانے لگا مگر جنونی دوره کسی بھی وقت اسے بے حال کر دیتا.
دوران جنون اس کے منہ سے بس ایک هی لفظ جاری رهتا "نہیں نہیں نہیں"
آخر کا مطلب کیا هو سکتا تھا. لالہ جب هوش میں هوتا تو لوگوں نے کئی بار اس سے پوچھا که دوره پڑتے وقت تم نہیں نہیں کیوں کرتے هو، مگر لالے نے کبھی کسی کو اس کا مطلب نه بتایا.
ادھر میرے حالات کچھ اس طرح رخ بدل گئے که میں تیسری بار سکول میں داخل هوا اور وه بھی لالے کی مہربانی سے. پہلے اس نے مجھے سمجھایا که هم پڑھیں گے بھی ایک ساتھ اور کام بھی ایک ساتھ کریں گے.
پھر لالے نے اساتذہ کو راضی کیا جو مجھ سے بدظن هو چکے تھے اور مجھے بھگوڑا قرار دے کر اب مجھ پر اعتبار نہیں کرنا چاہتے تھے. لالے نے کسی نه کسی طرح ان کو راضی کر لیا.
تیسرا مرحلہ ابو کو راضی کرنا تھا کیونکہ اب وه سکول کے حوالے سے میری ذمہ داری نہیں لینا چاہتے تھے. ان کو میرے بھگوڑے پن کی وجہ سے اساتذہ کے سامنے شرمندہ هونا پڑا تھا اور اب وه سکول میں میری گارنٹی نہیں دے سکتے تھے.
تاهم لالے کی ذمہ داری پر ابو نے مجھے تیسری بار سکول میں کروا دیا.
مگر جیسا که کوئی انسان اپنے آپ کو مکمل تباہ کرنے کی قسم کھا لیتا ھے. میرا حال بھی کچھ ایسا هی تھا.
چند دن تک میں سکول جاتا رها پھر خیال آیا که آخر میں نے داخلہ کیوں لے لیا. جب یہاں میرے لئے کوئی دلچسپی هی نہیں تو میں کیوں چلا آیا.
دماغ خانہ خراب نے مجھے ایک بار پھر بھاگنے کی راه دکھائی.
اور پھر میں نے تیسری بار سکول چھوڑا تو گھر کا رها نه گھاٹ کا. لوگ مچھ سے نفرت کرنے لگے. ابو نے مجھے نظروں سے دور هو جانے کا حکم دیا. اب صرف نازیه کی ذات میرے لئے سہارا تھی مگر میں یه بھول گیا که میری ان حرکات کی وجه سے نازیه بھی تو متنفر هو سکتی ھے.
آواره گردی میں بہت سا وقت گزر گیا پھر معلوم هوا که کراچی سے نازیه آنے والی ھے. یه خبر سن کر هی میری دنیا میں بہار آ گئی.
نازیه پہلے بھی ایک بار آ کر جا چکی تھی اور مجھے علم نہیں هوا تھا. مگر اب میں مستعد اور چوکس هو گیا اور نازیه کا انتظار کرنے لگا.
اور پھر ایک دن همارے گاؤں میں تانگه داخل هوا جس پر نازیه آئی تھی. میں نے اسے دور هی دور ره کر دیکھا اور انتظار میں رهتے لگا که وه کب مجھے اکیلے میں ملتی ھے. تین چار روز گزر گئے مگر هماری ملاقات نه هو سکی. اس کو میں نے گئی بار اشارے بھی دیے که کہیں اکیلے میں ملو، مگر موقعه نه ملا. بے چینی سے میری جان نکلی جا رهی تھی. میں اس کی قربت کو ترس رها تھا.
پھر اچانک مجھے احساس هوا که وه از خود ملاقات کی کوشش نہیں کر رهی. مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا. آخر اس کو اس بات کا احساس کیوں نہیں که اس کی خاطر میں نے اپنا آپ تباہ کر لیا اور زمانے کے خیالات چھوڑ کر بس اسی کے انتظار کرتا رها.
آخر میں نے همت کر کے چند لمحوں کا موقعه ایجاد کیا اور اس سے پوچھا که اتنی بے رخی کیوں؟
میرے کانوں نے نازیه کے یه الفاظ سنے.
"اب تم میرے معیار کے نہیں رهے، میں تم سے محبت نہیں کرتی"
Comments