parween shakir kon thi kia the

چوبیس نومبر ،پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی ،کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔
اُن کی پیدائش کے دن پر اُنکی چند غزلیں
؛----------؛--------1-------؛---------؛
بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اُس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو
اُس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا، لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کِسی وقت میں اپنا ، لوگو
دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اُس نے دشمن بھی نہ سمجھا، لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا
صبح تک چین نہ آیا ، لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہُوئی
اَبر پھر ٹوٹ کے برسا، لوگو
؛-----------------؛------2------؛-------------؛
وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا
خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا
کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا
میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا
کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں
کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا
دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اور اب یہ دُکھ ، کہ پہن کر کِسے دِکھانا ہُوا
میں اپنے کانوں میں بیلے کے پھُول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا
؛----------------؛-----------3-----------؛-------------؛
یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
وہ کہ جن کے ہاتھ میں تقدیرِ فصل گُل رہی
دے گئے سُوکھے ہُوئے پتوں کا نذرانہ ہمیں
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں
سچ تمھارے سارے کڑوے تھے، مگر اچھے لگے
پھانس بن کر رہ گیا بس ایک افسانہ ہمیں
اجنبی لوگوں میں ہو تم اور اِتنی دُور ہو
ایک اُلجھن سی رہا کرتی ہے روزانہ ہمیں
سُنتے ہیں قیمت تمھاری لگ رہی ہے آج کل
سب سے اچھے دام کس کے ہیں ، یہ بتلانا ہمیں
تاکہ اُس خوش بخت تاجر کو مبارکباد دیں
اور اُس کے بعد دل کو بھی ہے سمجھانا ہمیں
؛----------------؛----------4---------؛----------
سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے
دیکھوں تو نظر بدل رہا ہے
کیوں بات زباں سے کہہ کے کھوئی
دل آج بھی ہاتھ مَل رہا ہے
راتوں کے سفر میں وہم سا تھا
یہ میں ہوں کہ چاند چل رہا ہے
ہم بھی ترے بعد جی رہے ہیں
اور تُو بھی کہیں بہل رہا ہے
سمجھا کے ابھی گئی ہیں سکھیاں
اور دل ہے کہ پھر مچل رہا ہے
ہم ہی بُرے ہو گئے __کہ تیرا
معیارِ وفا بدل رہا ہے
پہلی سی وہ روشنی نہیں اب
کیا درد کا چاند ڈھل رہا ہے
؛----------------؛--------5-----------؛--------
گئے موسم میں جو کھِلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی سب، مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو ، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
؛------------؛-------6--------؛---------؛
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل میں‌ خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
اک دفعہ تو رک ہی گئی گردشِ ماہ و سال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں‌ ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں‌ گرا بھول گیا سوال بھی
؛-----------؛-------7-------؛-------؛
کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی
وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی
اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی
وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی
بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی
سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی
؛------------؛----------8--------؛------------؛
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
لوگ تھرا گئے جس وقت منادی آئی
آج پیغام نیا ظلِ الہی دیں گے
جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار
جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی لیں گے
ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی
اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے
آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا
اہلِ کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے
شہر کی چابیاں اعدا کے حوالے کر کے
تحفتاً پھر انہیں مقتول سپاہی دیں گے

Comments

Popular posts from this blog

Foji or larki

opening new job

: نابالغ اور کچے ذہن ہرگز نہ پڑھیں۔۔!!